Molana Qari Salim Ahmed Al-Qasmi
تمام تعریفیں اس خالق ومالک ارض وسماں کیلئے ہیں جو پوری کائنات کا پالنہار ہے کہ جس نے وجہ تخلیق کائنات سرورکونین سلطان دارین تاجدار بطحا مُحَمَّد عربی ﷺ کو رحمۃ اللعلمین بناکر بھیجا۔ مضمون کی ابتدا عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند کے مئسس اول اور بانی قاسم العلوم والخیرات حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ وبرداللہ مضجعہ کے نعتیہ اشعار سے کرتاہوں جوبہت ہی جاندار اورشاندار ہیں۔
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے
نقش روئے محمد (ﷺ) بنایا گیا
پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی
بزم کون ومکاں کوسجایا گیا
وہ محمؐد بھی،احمدبھی،حامدبھی،محمود بھی
حسن مطلق کاشاہد ومشہودبھی
علم وحکمت میں وہ غیرمحدودبھی،
ظاہرا امّیوں میں اٹھایا گیا
کسلئے ہو مجھے حشرکا غم اے قاسم!
میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ
جنکے قدموں میں جنت بسائی گئی
جنکے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا۔
ختم الرسل مولائے کل فخررسل سید ولد آدم احمد مجتبی مُحَمَّد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے 50 یا 55 روز کے بعد بتاریخ 8 یا 9 اور مشہور قول کے مطابق 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 عیسوی پیر کے دن ملک عرب کے ایک محترم ومقدس شہر مکہ معظمہ میں آپ ﷺ کے پیارے چچا جناب ابوطالب کے مکان پر صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب سے قبل ھوئی۔ نبی مکرم ﷺ عرب کے مشہورومعروف قبیلہ قریش اور نہایت ہی معززومحترم اور اشراف خاندان بنی ہاشم سے ہیں۔ولادت کے ساتویں روز آپ ﷺ کے دادا محترم جناب عبدالمطلب نے آپ ﷺ کا عقیقہ کیا اور اس تقریب میں تمام قریش کی دعوت کی اور آپ ﷺ کااسم گرامی مُحَمَّد اور آپ ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ نے آپ ﷺ کا مبارک نام احمد رکھا۔عثمان بن ابی العاص ؓ کی والدہ فاطمہ بنت عبداللہ فرماتی ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ کے پاس موجود تھی تو اسوقت دیکھا کہ تمام گھر نور سے بھر گیا اور دیکھا کہ آسمان کے ستارے جھکے آتے ہیں یہاں تک کہ مجھ کو یہ گمان ہوا کہ یہ ستارے مجھ پرآگریں گے،اسی شب کہ جس رات آپ ﷺ کی پیدائش ہو ئی،یہ واقعہ پیش آیا کہ ایوان کسری میں زلزلہ آیا جس سے محل کے 14 کنگورے گر گیے اور فارس کا آتش کدہ جو ہزار سال سے مسلسل روشن تھا وہ بجھ گیا دریا ساوہ خشک ہوگیا،جس وقت آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی تو نہایت نظیف اور پاک صاف تھے جسم اطہر پر کسی طرح کی آلائش اور گندگی نہیں تھی کہ جسطرح پیدا ہونے والے بچہ کے بدن پر آلائش اور گندگی ہوتی ہے، حضرت عباس ؓ فرماتے کہ نبی کریم ﷺ مختون پیداہوئے،جناب عبدالمطلب کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا اور یہ کہا کہ البتہ میرے اس بیٹے کی بڑی شان ہوگی چنانچہ ہوئی،آپ ﷺ کی دادی کا نام فاطمہ نانا کا نام وہب اور نانی کا نام برہ تھا،آپ ﷺ کی ولادت سے دوماہ قبل والد مکرم حضرت عبداللہ کی وفات ہو چکی تھی گویا کہ آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے،ولادت باسعادت کے بعد 3یا 4 روز تک آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے آپکو دودھ پلایا پھر آپکے چچا ابولہب کی آزاد کردہ باندی ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا،اسکے بعد عرب کے دستور کے مطابق بنی سعد کی ایک خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپکودودھ پلایا،4 سال کی عمر میں اول مرتبہ شق صدر ہوا جبکہ حضرت حلیمہ کے یہاں اپنے رضاعی بھائیوں کیساتھ جنگل میں بکریاں چرانے گیے ہوئے تھے،شق صدر کا واقعہ کل 4مرتبہ پیش آیا۔ (1)اول بارزمانہ طفولیت میں جبکہ عمر چار سال کی تھی،(2) دس سال کی عمر میں، (3) تیسری بار بعثت کے وقت،(4) معراج کے وقت۔ شق صدر دراصل جو اول مرتبہ آپ ﷺ کے رضاعی بھائیوں نے دیکھا کہ2فرشتے حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل سفید پوش انسانوں کی شکل میں سونے کا طشت برف سے بھرا ہوا لیکر آئے اور آپکا شکم مبارک چاک کرکے قلب اطہر کو نکا لا پھر قلب کو چاک کیا اور اس میں سے ایک یا دو ٹکڑے خون کے جمے ہوئے نکالے اور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ ہے اور قلب کو اس طشت میں رکھ کر برف سے دھویا بعد ازاں قلب کو اپنی جگہ رکھ کر سینے پر ٹانکے لگائے اور دونوں شانوں کے درمیان مہرلگادی، 6سال کی عمر میں والدہ محترمہ داغ مفاقت دے گئی اور جب 8سال کی عمر کو پہنچے تو آپکے پیارے دادا عبد المطلب بھی ساتھ چھوڑ گیے،دادا کی وفات کے بعد آپ اپنے چچا جناب ابوطالب کی آغوش تربیت میں آگئے،12 سال کی عمر میں اپنے چچا ابوطالب کیساتھ ملک شام کا پہلا تجارتی سفر کیا اور جب شہر بصری کے قریب پہنچے تو وہاں ایک نصرانی راہب جسکا نام جرجیس تھا اور بحیرا کے نام سے مشہور تھا اس نے آپ ﷺ کی علامات نبوت کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہی اللہ کا آخری رسول اور دو جہانوں کا سردار ہے، 14 سال کی عمر میں اپنے چچاؤں کے جبر اور اصرار کیوجہ سے حرب الفجار معرکہ میں شرکت کی لیکن آپ نے جنگ نہیں کی،حرب الفجار جنگ کے خاتمہ پر آنحضرت ﷺ کے چچا زبیر بن عبد المطلب کی تحریک پر بنو ہاشم بنو تمیم بنو زہرہ وغیرہ عبداللہ بن جدعان کے گھر پر جمع ہوئے اور یہ عہد کیا کہ بلد امن مکہ مکرمہ میں ظلم وستم اور ناانصافی نہیں ہونے دیں گے نیز اس پر معاہدہ امن طے پایا اس معاہدہ امن میں نبی الحرمین ﷺ بھی شریک ہوئے اسوقت آپکی عمر شریف 20 سال تھی،عنفوان شباب 25 سال کی عمر میں نبی رحمۃ اللعلمین ﷺ کی امانت ودیانت حلم وبردباری اخلاق وشرافت محبت ومروت اور صداقت وسچائی کا ڈنکا مکہ کے ہر گھر میں بج رھا تھا اہل مکہ آ کو امین اور صادق کہہ کر پکارتے تھے،مکہ معظمہ میں حضرت خدیجہ بنت خویلدقریش کی ایک دانا وبینا مالدار تجربہ کار عورت تھیں وہ اپنا مال تجارت لوگوں کو بطور مضاربت دیا کرتی تھیں،انہوں نے آپ ﷺ کی امانت وسچائی کے چرچے سنکر اپنامال تجارت آپکے حوالہ کیا اور ساتھ میں اپنے غلام میسرہ کو بھی بھیجا راستہ میں ایک درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے تشریف فرما ہوئے وہاں ایک راہب جسکا نام نسطورا تھا،اس راہب نے میسرہ سے کہا اس درخت کے نیچے عیسی بن مریم کے بعداب تک کوئی نہیں ٹھہرا،یہ اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں،میسرہ کا بیان ہے کہ جب دوپہر کا وقت ہوتا تو فرشتے آپ پرسایہ کرتے،یہ آپ ﷺ کا ملک شام کا دوسرا تجارتی سفر تھا،سفر کی ان باتوں کو سن کر حضرت خدیجہ نے آپکی زوجیت میں آنے کا ارادہ کیا اور آپکے پاس نفیسہ نامی عورت کے ذریعہ نکاح کا پیغام بھیجا جسکو آپ ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کے مشورہ کے بعد قبول فرمالیا۔پھر تاریخ معین پر آپ اپنے چچاابوطالب اور حضرت حمزہ اور دیگر رئساء خاندان کو لیکر حضرت خدیجہ کے گھر تشریف لے گئے چنانچہ خدیجہ کے چچاعمروبن اسد کے سامنے ابوطالب نے نکاح پڑھایا اور پانچ سو درہم مہر مقرر ہوا،اسوقت آپ ﷺ کی عمر 25 سال اور پہلا نکاح تھا اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال اور تیسرا نکاح تھا،جب آ پکی عمر مبارک 40 سال ایک یوم کی ہوئی تو ربیع الاول کی 8 تاریخ بروز پیر آپکو نبوت سے سرفرازکیاگیااورغارحرامیں حضرت جبرائیل علیہ السلام سب سے پہلی وحی اقرأ باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلم تک کی ابتدائی آیات مقدسہ لیکر پہنچے، تقریبا3 سال تک پوشیدہ طور پر اسلام کی تبلیغ فرمائی جسکے نتیجہ میں تقریبا 30 افراد مسلمان ہوئے اور پھر جب اعلانیہ تبلیغ کا حکم آیا تو آپ ﷺ نے اعلانیہ تبلیغ کی اور سن 6 نبوی میں آپکے چچاحضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ مسلمان ہوئے،اس درمیان آپ ﷺ کی انگلی کے اشارہ سے چاند کے دوٹکڑے کرنے کے معجزہ کا ظہور ہوا اور دیگر معجزات کیساتھ ہجرت حبشہ اولی اور ہجرت حبشہ ثانیہ ہوئیں اور سن 10 نبوی میں آپکے ہمدرد چچا جناب ابوطالب اور آپکی غمگسار زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال ہوااور سن11 نبوی 27 رجب کی شب میں معراج ہوئی، یعنی حضور اکرم ﷺ کا ایک رات بعدنماز عشا جبرائیل علیہ السلام کیساتھ بذریعہ براق مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی سیرکراکر سدرۃ المنتہی پر تشریف لیجانا اور فجر سیقبل واپس آجانا،جب مکہ مکرمہ میں کفارومشرکین نے آپکو ستانے کی تمام حدیں پار کردیں یہاں تک کہ قتل کا فیصلہ کرلیا تو اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ہجرت کے حکم پر 53سال کی عمر میں 26.27 صفر سن 11 نبوی کی درمیانی شب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لیکر مکہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی،مدینہ منورہ پہنچنے پر آپﷺ کا اہل مدینہ نے زبردست استقبال کیا،مدینہ جانے کے بعد آپ نے مہاجرین وانصار کے درمیان رشتہ مواخات (بھائی چارہ) قائم کیا، سن 1 ہجری میں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور اسی سال یہود مدینہ سے امن معاہدے کیے،آپ ﷺ تقریبا 24 یا 27 جہادوں میں تشریف لے گیے نیز آپ ﷺ نے امیروں اور بادشاہوں کو دینی دعوت دینے کیلئے خطوط کا بھی استعمال فرمایا،سن 8 ہجری رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ بغیر جدال وقتال کے فتح ہوا،سن 10 ہجری میں آپ ﷺ نے آخری حج ادا کیا جسکو حجۃ الوداع کہتے ہیں اسوقت آپکے ساتھ مہاجرین وانصار اور دیگر اصحاب کی ایک عظیم الشان جمعیت موجود تھی جسکی تعداد ایک لاکھ سے زائد منقول ہے،آپ ﷺ کے نکاح میں کل گیارہ عورتیں آئیں 1 حضرت خدیجہ ؓ،2 حضرت سودہ،ؓ 3 حضرت عا?شہ ؓ، 4 حضرت صفیہ ؓ،5 حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ، 6 حضرت ام سلمہ،ؓ 7 حضرت زینب ؓ بنت جحش،8 حضرت جویریہ ؓ،9 حضرت ام حبیبہ،ؓ 10 حضرت حفصہ،ؓ 11 حضرت میمونہ ؓ۔آپ ﷺ کی اولادمیں 3 صاحبزادے،1 حضرت قاسم، 2 حضرت عبداللہ، (انہی کے دو نام طیب اور طاہر بھی تھے) یہ دونوں بیٹے ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ سے تھے،3 حضرت ابراہیم یہ آپکی ام ولد حضرت ماریہ قبطیہ ؓ سے تھے، یہ تمام صاحبزادے بچپن میں ہی انتقال فرما گیے تھے،وہیں 4 صاحبزادیاں،1 حضرت زینب ؓ،2 حضرت رقیہ،ؓ 3 حضرت ام کلثوم،ؓ 4 حضرت فاطمہ ؓ، چاروں بیٹیاں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے ہیں۔غرض اللہ تبارک وتعالی کے آخری اور لاڈلے رسول ﷺ نے حق رسالت ادا کرنے اور تکمیل دین کے بعد 13 روز تک بیمار رہ کر 12 ربیع الاول سن 11 ہجری مطابق 9 جون سن 632 عیسوی بروز پیر چاشت کے وقت بعمر63 سال 4 یوم عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی اور رفیق اعلی سے جا ملے۔
إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّ?ا إِلَیْہِ رَاجِعونَ
آپ ﷺ کے آخری کلمات: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ مرض وفات میں کبھی کبھی چہرہ انور سے چادر اٹھاکر فرماتے یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیانیزآپ ؓ فرماتی ہیں کہ بالکل آخری وقت میں زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے، الصلوۃ الصلوۃ وما ملکت ایمانکم: یعنی نماز اور ان لوگوں کے حقوق کا خیال رکھو جو تمہارے قبضہ میں ہیں،یارب صل وسلم دائیماابدا،علی حبیبک خیر الخلق کلہم
کی مُحَمَّد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں