نئی دہلی،19دسمبر(محمد ارسلان خان):سوشل ورکر ڈاکٹر عذرا نقوی نے آج کہاکہ ہندوستان میں مسلم خواتین کے بارے میں ایک دقیانوسیت ہے،جبکہ لاکھوں ہندوستانی خواتین جو اپنے آپکو مسلمان تسلیم کرتی ہیں مختلف نسلوں، زبانوں، ریاستوں و مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک پہنچتی ہیں،مختلف طریقوں سے قوم کی تعمیرمیں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایک جیسی نظر نہیں آتیں عوام کے درمیان اسلام اور خواتین کے مسئلے نے کبھی دانشوروں اور سیاستدانوں کی دلچسپی کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے،غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مذہب انکی زندگی کے ہرپہلوکو متاثرکرنے والی بنیادی قوت ہے،انہیں اب بھی دنیا سے باہر ہونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں انکی زندگی کے ہر قدم کو مختلف مذہبی رہنماؤں و علما کے ذریعہ وقتا فوقتا جاری کردہ مذہبی عقیدوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے،توجہ انکی زندگی میں مذہب کے کردار پر ہمیشہ رہتی ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے ان پر مسلم پرسنل لا کا سختی سے کنٹرول ہے جو زمینی حقائق سے بہت دورہے،ہزاروں مسلم خواتین ہیں جنہیں غیر روایتی شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے والے کے طورپردیکھاجاسکتاہے۔انہوں نے بتایا کہ کلکتہ میں زرد ستارہ ایوارڈز کی حالیہ تقسیم ہمیں مسلم خواتین سے وابستہ دقیانوسی تصور کو توڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے، ان میں قابل ذکر ہیں بالکل کیرالہ سے تعلق رکھنے والی سائینی بوسف زراعت کے میدان میں اپنی شناخت بنانے والی بہ یلانی چھتیس گڑھ کی پریا بانو، میرٹھ یوپی کی زینب خان، تعلیم کے میدان میں چمک رہی ہیں،عظمی فیروز کو کاسٹیوم جیولرکے طور پر کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور تمام تر مشکلات کے باوجودکامیاب رہی، صبوحی عزیز نے آل بنگال مسلم ویمنز ایسوسی ایشن جیسی این جی اومیں اپنی موجودگی کو نشانزد کرتے ہوئے نوجوان مسلم لڑکیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے کیلئے کام کیا جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں لاکھوں کیلئے رہنمائی کاباعث ہیں، مسلم خواتین جو دقیانوسی تصورات کوتوڑنے سے کرتی ہیں، ابتدائی اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئیگی کہ مسلم خواتین نے تحریک کی آزادی کا لطف اٹھایا اور زندگی کے تمام شعبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہ حکمران، استادہ تاجراور نبیﷺ کے اصحاب کے طور پر جانے جاتے تھے،در حقیقت انہوں نے جانشینی کی تعریف اپنی شرائط پر کی اور ثابت کیا کہ وہ معاشرے کے حقیقی معمار ہیں، کچھ معروف نام جنکے کارنامے قابل ذکر ہیں ان میں حضرت عائشہ نبی ﷺکی اہلیہ ہیں جنہوں نے حدیث کے ایک اہم راوی ہونے کیساتھ ساتھ اپنی دیانت و علمی صلاحیتوں کے ذریعے اسلام کے مقصد میں بے پناہ تعاون کیا، انکی حکمت و سیکھنے کی صلاحیت نے اسے اپنے دور کے بہت سے مردوں سے برتر بنا دیا، اس سے ہمیں پتہ چلتاہیکہ یہ اسلام نہیں نے خواتین کو پیچھے کی طرف مجبور کیا تھا بلکہ اسلام کے آدھے علم والے مبلغین جنہوں نے اسلام کو آرتھوڈوکس اور خواتین کیلئے اجنبی بنادیا تھا، در حقیقت نبی کریم ﷺہمیشہ خواتین کی بہتری پر یقین رکھتے تھے،قرآن پاک کی تعلیمات نے نہ صرف عورت کوبیشمارپریشانیوں اور غیر انسانی سلوک کی حالت زارسے ازار سے نجات دلاتی بلکہ انکے مقام کو بھی بلندی تک پہنچایا،واحد عمل جومسلمان خواتین کیلئے ترقی و کامیابی کو یقینی بنائیگا وہ ہے اپنے شاندارکامیاب پیشروؤں کے نقش قدم پرچلنازمانہ نبوی سے بھی اور عصری نور سے بھی پڑھاتی،کو پیمانہ کرنے کیلئے ہمت کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ بہت سی رکاوٹوں سے چھائی ہو سکتی ہے،جوبہت کم یامڑے ہوئے مذہبی علم و برتری کا احساس رکھتے ہیں،یہ مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ تعلیمی سطح میں بہتری مسلم خواتین کی،سماجی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت کو براہ راست متاثر کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ جدید دور میں خواتین کو بااختیار بنانے کی جستجوکاتعلق قیادت کے مسئلے سے ہے،موجودہ دور کی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جبکہ مسلم خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد اعلی ترین عہدوں پر فائز ہو کر اپنی قوموں کی قابلیت کیساتھ رہنمائی کر رہی ہے، جبکہ دیگر کئی اب قدامت پسندی اور مذہبی عقیدے کے طوق میں جکڑے ہوئے ہیں،اسلام کے تناظرمیں دنیا کے پیچیدہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ مسلم خواتین کی حقیقی سیاسی حیثیت پر قرآن و سنت،فقہی گفتگو کی روشنی میں وضاحت کی جائے، قیادت کے مسئلے حل اسلامی نقطہ نظرسے خواتین کو بااختیار بنانے پرنمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔