نئی دہلی،16/جنوری(نمائندہ):سماجی خدمتگارمولانا سید شکیل احمد نے آج کہاکہ 29 جنوری 2006 کواقلیتی امور کی وزارت کو سماجی انصاف و بااختیار بنانے کی وزارت میں ایک ڈویژن کے طور پر قائم کیا گیا تھا تاکہ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں جنمیں مسلمان، عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے شامل ہیں، سے متعلق مسائل پر زیادہ ہدفی نقطہ نظر کو یقینی بنایا جا سکے،سکھ، پارسی اور جین،وزارت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ یقینی بنانا ہیکہ اقلیتی برادری معاشی، تعلیمی اور روزگار کے مواقع میں منصفانہ حصہ لے اور انکی ترقی کو یقینی بنائے،ہندوستان میں تعلیم ایک بنیادی حق ہے، لیکن ہر کوئی اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں معیاری تعلیم کا متحمل نہیں ہو سکتا، مالیاتی نظام کی خرابی کیوجہ سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لاکھوں بچے حق تعلیم کی دہلیز کو عبور کرنے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے میں ناکام رہتے ہیں، اسطرح کی مشکلات کوختم کیلئے حکومت نے اقلیتی طلبہ کیلئے مختلف اسکالرشپ پروگرام قائم کیے، جنمیں پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپس اور پسماندہ زمرے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے میرٹ کم اسکالرشپ شامل ہیں، 22-21 میں مرکزی اسکالرشپ اسکیموں کے وصول کنندگان کی تعدادبڑھ کر 15,532 ہوگئی، اقلیتی طبقے کے طلبہ جو اسطرح کے اسکالرشپ حاصل کررہے ہیں، انکی آبادی کے مقابلے میں مایوس کن ہے،’نیا سویرا‘ فیلوشپ پروگرام کے وصول کنندگان کی تعداد بھی 19-20 میں 9,580 سے گھٹ کر 21،22 میں 5,140 ہوگئی، بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ پروگرام صرف اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی جماعت 9 سے 12 تک کی طالبات کیلئے ہے،طلبااسکالرشپ کے اہل ہیں انکے خاندان کی سالانہ آمدنی 2 لاکھ روپے سے کم ہے، اس پروگرام کے مستفید ہونے والے 19-20 میں 2.95 لاکھ سے21-22 میں 1.65 لاکھ تک کم ہوگئی،اسکالرشپ اسکیموں کے پیچھے سب سے اہم وجہ بیداری کا فقدان ہے کیونکہ اقلیتوں کی اکثریت بے زمین مزدور، معمولی پیشوں میں ملوث، پچھلی گلیوں میں رہنے والے اورباقاعدہ،یقینی اور کافی آمدنی سے محروم ہیں، اقلیتی آبادی کا نصف سے زیادہ اس زمرے میں آتا ہے، وہ تعلیم کو خود کی بہتری کا ذریعہ نہیں سمجھتے،وہ اسے کم مالی وسائل پر بوجھ کے طور پر دیکھتے ہیں، غربت لوگوں کوتعلیم کے حصول کیلئے اپنی کمائی خرچ کرنے کے بجائے روزی کمانے کو ترجیح دینے پر مجبور کر تی ہے،جدید تعلیم کی طرف اقلیتوں کا رویہ جاہلانہ ہے اور مذہبی تعلیم پرانکا زور اور بدلتی ہوئی دنیا کی ضروریات کے مطابق روایتی تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں کمی انکی تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار ہے، مختلف اسکالرشپ اسکیموں کے بارے میں آگاہی کی کمی بہت سے ذہین لیکن پسماندہ بچوں کو مالی مجبوریوں اورغریب والدین کی بے حسی کیوجہ سے اپنی تعلیم جاری سے روکتی ہے، تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کے پیچھے رہنے کی درجنوں وجوہات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، آسان حل انکو درپیش زیادہ تر مسائل پر قابو پا سکتا ہے،انکے لیے مختلف اسکالرشپ اسکیموں کے بارے میں آگاہی، اس سے وہ ملک کی تعلیمی ترقی میں حصہ لے سکیں گے، جسکے نتیجے میں وہ ترقی کے عمل میں زیادہ بامعنی اور فعال طور پر حصہ لے سکیں گے، اقلیتوں کیلئے دلدل سے نکلنے اور فکری طور پر خود کو بااختیار بنانے کا کچھ بوجھ اٹھانا بہت ضروری ہے، ریاست اور سول سوسائٹی کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے، اقلیتوں کو یقیناً تعلیمی پسماندگی کی گہرائی سے نکالا جا سکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here