نئی دہلی،14 /نومبر(نمائندہ):صوفی حافظ محمد احتشام الحق دہلوی نے اپنے صحافتی بیان میں کہاکہ ہندوستان کے بہت سے خطوں میں مدارس سرکاری اسکولوں کے متبادل کے طور پر سامنے آئے ہیں کیونکہ پسماندہ برادریوں اور دور دراز علاقوں میں پرائمری تعلیم کی فراہمی میں مشکلا ت کا سامنا ہے،یہ جگہ مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بہت تیزی سے پُر ہوئی، ملک میں 150ملین سے زیادہ مسلمان آباد ہیں،لیکن انکی خواندگی کی شرح قومی اوسط 74فیصد سے بہت کم ہے،صرف 68فیصد مسلمان پڑھنے اور لکھنے دونوں میں خواندہ ہیں اور اسکی حقیقت کے باوجود ریاستوں میں انکی آبادی ایک دوسرے سے متنو ع ہوسکتی ہے،ان میں سے کچھ جیسے ہریانہ کی شرحیں 53فیصد تک کم ہیں،ہندوستان میں مدارس اسلامی تعلیم فراہم کرتے ہیں جنمیں قرآن کی تفسیر، حدیث (محمد ﷺکے اقوال)اوراسلام کاقانون (فقہ)شامل ہیں اوران میں سے کچھ غیر اسلامی مضامین جیسے منطق کی تعلیم بھی دیتے ہیں،فلسفہ اور ریاضی جو اسلامی عناصر کو سمجھنے میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔مدارس مسلم ثقافت میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں،جومذہبی احکام کوپڑھنے،تعلیم دینے،برقرار رکھنے اور انکی پاسداری کیلئے جگہوں کے طور پر کام کرتے ہیں،ان میں سے زیادہ تر مدارس طلبا کو انتہائی مسابقتی دنیاکیلئے تیارکرنے میں ناکام رہتے ہیں جسکے لیے رسمی تعلیم ہو اچھی حکمرانی کی ضرورت ہوتی، ملازمت اور مزید تعلیم کے مواقع سے الگ کرنے کا ہوتا ہے،چونکہ تمام فارغ التحصیل افراد مساجد اور دیگر مذہبی پیشوں میں ملازمت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں،اسلئے ان افراد کے پاس بہت کم اختیارات دستیاب ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ آجکی انتہائی مسافقتی لیبر مارکیٹ میں مدارس کے پاس آؤٹ کو تکنیکی مہارت اور مواصلات کی مہارت کی کمی کیوجہ سے کوئی موقع نہیں ملتا،مدارس کی اکثریت اپنی آمدنی کیلئے نجی کفالت اور شراکت پر انحصار کرتی ہے اسکے لیے نتیجے میں مدرسہ کا تعلیمی نظام مالیاتی مسائل سے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے،یوپی اوربہارمیں حکومت کی طرف سے یہ حالیہ کوشش رہی ہے کہ تسلیم شدہ مدارس کو مالی امداد کی پیشکش کی گئی ہے،تاہم مدرسہ کی انتظامیہ سرکار ی مالیات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کامظاہرہ کر رہی ہے کیونکہ مذہبی نصاب جو کہ تاریخی طورپراسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے،کے مکمل طور پر کمزور ہونے کے خوف سے،جبکہ مدارس کیلئے فٹنگ کمیونٹی کی طرف سے آتی ہے، واجبی صدقہ کی شکل میں جسے زکوٰۃ کہاجاتاہے،اسکے باوجود ملک کے مدارس وسائل کی کمی کامسلسل مقابلہ کرتے ہیں اور منا سب سہولیات،اساتذہ اور تعلیمی آلات فراہم کرنے کیلئے ہاری ہوئی جنگ لڑتے ہیں،مدرسے کے ادارے کی وسیع رسائی ہے اور یہ ہندوستان مسلمانوں کیلئے اہم ثقافتی اہمیت کا حامل ہے،معاشی طورپرپسماندہ مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے تقر یبا40ہزارمدارس کیلئے مالیات جو باقاعدہ اور کافی دونوں ہوں،طلبہ کومستقبل میں روزگار تلاش کرنے کیلئے ایک برار کا میدان فراہم کیا جا سکے،مدارس ہندوستان کی سب سے زیادہ نظر انداز شدہ آبادیوں میں سے ایک میں خواندگی کی شرح بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر انکی اصلاح کی جائے،کیو نکہ ہندوستان میں مدارس کے اداروں نے مسلمانوں میں شرح خواندگی میں زبردست حصہ ڈالا ہے اور مدرسہ انتظامیہ و حکومت کے درمیان اعتماد وبھروسہ پیدا کرنا ضرور ی ہے مدارس میں اوپر سے نیچے کی تبدیلی مسلط کرنے کے بجائے جدید تعلیم مطابق داخلی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی اس با ت کو یقینی بنائیں کہ مدارس مذہبی اور ثقافتی قدروں سے محروم نہ ہو اور سائنس وسماجی علوم جیسے جدیدمضامین کو بھی شامل کیا جائے،نیزاس بات پر روشی ڈالی جائے کہ پاکستان کے بر عکس جہاں مدارس انتہا پسندی میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے اوپر سے نیچے کی اصلاح کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے،ہندوستان مدارس کے اداروں نے خود کوتبدیلی کیلئے کھلا رکھا ہے،تشوش صرف یہ کہ وہاں کوئی کمزوری یا مکمل کٹاؤ نہ ہو جائے،اُنکانصاب،یوپی میں علما کی طرف سے اصلاحات کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کمیونٹی کے بہترین مفاف میں ہے کہ مدارس سروے واصلاحات کیلئے کھلے ہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here