نئی دہلی،8/فروری(محمدارسلان خان):سماجی خدمتگار حاجی محمد عثمان احمد نے آج اپنے صحافتی بیان میں کہاکہ مسلم شادی و طلاق کے قوانین کی خصوصیت نے اسے قانونی ماہرین و سماجی سائنسدانوں کے درمیان بحث کا موضوع بنا دیا ہے، مسلم شادی کی کچھ خصوصیات دوسرے مذاہب سے مختلف ہوتی ہیں،ایک PIL دائر کی گئی تھی، خاص طورپرمسلم پرسنل لاز کے تحت اجازت دی گئی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے، جو مسلم لڑکیوں کو 15 سال کی عمر میں شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے،درخواست کے مطابق یہ عمل ایک مسلم لڑکی کے تحفظ، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی حق کیخلاف ورزی کرتا ہے، جنکی ضمانت بندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 کے ذریعے دی گئی جب اسے نابالغ ہونے کے باوجود قانونی طور پر پابند شادی میں شامل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے، ملک کے قانون کے مطابق)،اسلام کے مطابق جب کوئی شخص بلوغت کو پہنچتا ہے تو اسے بڑا سمجھا جاتا ہے اور شادی کی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل سمجھا جاتا ہے، کیلئے وہ اس عمرکوشادی کیلئے مناسب سمجھتے ہیں، قرآن کے مطابق ہر وہ شخص جوواقعی،فکری اور مالی طور پر تیار ہے، ایسا کرنا شادی میں شامل ہونے کی ذمہ داری ہے،دیگر عوامل پر غور کرتے ہوئے، روایتی سماجی احکامات نے ابتدائی تعلقات کو ترجیح دی،اسلام نے دراصل شادی کیلئے عمر کی کوئی حد متعین نہیں کی ہے، نہ تومردوں اورنہ عورتوں کیلئے، 18 سال کی عمر سے پہلے کی شادی خواتین کیلئے صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر وہ جو چھوٹی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں اور بچے پیدا کرتی ہیں، اسکا انکی جسمانی و علمی تندرستی کیساتھ ساتھ انکے بچوں کی صحت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے، کم عمری کی شادی در حقیقت بہت سی خواتین کے اسکول چھوڑنے اور انپڑھ رہنے کیوجہ، انتہائی غربت کے بڑھتے ہوئے نمونے ہیں،اسلام تعلیم کو ایک حق کے طور پر بہت اہمیت دیتا ہے، والدین وسرپرستوں کو اس بات کو یقینی بنانے کیلئے واضح احکامات دیے گئے ہیں کہ انکے بچے سیکھیں،کم عمری کی شادی تہذیبوں میں عام رواج رہی ہو گی جہاں لڑکیوں سے تحقیق یا نوکری تلاش کرنے کی توقع نہیں کی جاتی تھی، تاہم اب یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اب پوری دنیامیں بہت سی ایسی خواتین موجود ہیں جو مختلف قسم کے بالغ کردار ادا کرتی ہیں اور روایتی طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے بالغ بون کیلئے انتہائی تیار رہی، اسلام کے مطابق اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اسکے لئے جذباتی طورپرتیارہیں تو آپکو شادی کر لینی چاہیے، اسلئے ذہنی پختگی شادی کا سب سے اہم جز ہے، مزید پختگی کے کوئی مقررہ عمر نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف لوگوں کیلئے مختلف عمروں میں تیار ہوتا ہے، کم عمری کی شادی پر مکمل پابندی ضروری ہے، یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے ذہن کی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے، جسکے نتیجے میں زیادہ عملی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے،مختصر یہ کہ معاشرے میں مذہبی قدامت پرستی کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے، کسی بھی اہم تبدیلی کیلئے پالیسی سازوں عام لوگوں کو بھی تعلیم یافتہ ہوناچاہیے، جیسا کہ انکے عقائد اچھے کیلئے بدل گئے ہیں، تعلیم کو آہستہ آہستہ تبدیل کرنے اور پدرانہ عقائداورصنفی دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ یہ بچپن کی شادی کی بنیادی وجوہات ہیں، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں میں روایات کو معاشرے سے ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ اکیسویں صدی کے لوگ نا انصافی کو پہچاننے کی دور اندیشی رکھتے ہیں حالات سے نمٹنے کیلئے اب یا کبھی نہیں موزوں جملہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here