نئی دہلی،10اپریل(محمدارسلان خان):جمعیۃ القریش کے قومی سیکریٹری محمد مصطفی قریشی نے آج اپنے صحافتی بیان میں کہاکہ مسلمان اپنی جائیداد کا ایک حصہ خیرات یا مذہبی مقاصد کیلئے وقف کرتے ہیں، ہر ریاست میں وقف بورڈ قائم کیے گئے تھے اور قومی سطح پرایک سنٹرل وقف کونسل انکے رجسٹریشن اوراستعمال کی نگرانی اورانکو منظم کرنے کیلئے ہیں،وقف املاک کے استعمال سے قبرستان، مساجد، مدارس، یتیم خانے، ہسپتال، کلینک اور تعلیمی ادارے عوامی فلاح و بہبودکیلئے بنائے جاتے ہیں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت تقریباً تمام خیراتی ادارے بلا لحاظ مذہب سب کے استعمال کیلئے دستیاب ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے 2017 میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ جب سے وقف بورڈ قائم ہوا ہے، خالی جائیدادوں پر مافیا کے ذریعے قبضہ کرنے کا مسئلہ پیداہواہے،مسلمانوں کے فائدے کیلئے مال، تعلیمی ادارے، ہاسٹل اور ہنر مندی کے مراکز تیار کریں،جبکہ یوپی کے معاملے کو دیکھیں تو سنی سنٹرل وقف بورڈ ریاست میں 1.5 لاکھ سے زیادہ جائیدادوں کا مالک ہے، جبکہ شیعہ وقف بورڈ کے پاس12ہزارسے زیادہ جائیدادیں ہیں، ستمبر 2022 تک سی ڈبلیو سی کو یوپی سے وقف املاک کی بدانتظامی کے بارے میں کئی شکایات موصول ہونے کے بعدیوپی اور جھارکھنڈ وقف بورڈ کے انچارج سید اعجاز عباس نقوی نے حقائق کی جانچ کیلئے ایک فکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قیادت کی، جیسا کہ روزنامہ سیاست نے رپورٹ کیا، رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی کہ کسطرح سابق وزیراور اکھلیش کے قریبی نے مبینہ طور پر بورڈز کے تحت جائیدادیں حاصل کرنے کیلئے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا، مولاناجوہر علی ایجوکیشن ٹرسٹ قائم کیا اور وقف املاک فنڈز اس میں منتقل کیے، رپورٹ میں وقف املاک پر کرایہ وصولی کے ریکارڈ کی دیکھ بھال میں تضادات پر روشنی ڈالی گئی،سی بی آئی نے نومبر 2020 میں دو معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا، جسمیں الزام لگایا تھا کہ یوپی شیعہ سینٹرل وقف بورڈ اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ نے وقف املاک کوغیرقانونی طورپربیجا،خریدااورسے منتقل کیا،درگاہ باباکپور کی وقف جائیدادیوپی اور ایم پی کی سرحد پر 550 گاؤں میں ہے، لوگوں کی طرف سے رفاہی مقاصد کیلئے فنڈز کی بحالی کیلئے لڑنے کی یاد دہانی کے باوجود وہاں ایک پیسہ بھی وقف بورڈ کو نہیں جاتا ہے۔مصطفی قریشی نے مزید بتایاکہ کچھ معاملات میں یوپی میں وقف بورڈ نے مقامی سیاستدانوں کومال کیلئے قبرستان کی زمین بیچی، فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی مکمل طور پر بورڈ کے اراکین کو کئی جو کہ تمام اچھی طرح سے جڑے ہوئے مسلمان تھے جیسا کہ ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا ہے،وہیں رائٹرز کے مطابق حالیہ برسوں میں کئی ریاستی بورڈز پر یہ الزام ہے کہ وہ ڈویلپرز اور پرائیویٹ خریداروں کو وقف اراضی کو غیر قانونی طور پر کم بہاؤ پر فروخت کررہے ہیں،وہیں انڈیا ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق علی زیدی نے 6 بڑی وقف املاک پر ناجائز قبضے کی شکایات درج کروائی تھیں جنمیں موتی مسجد، قبرستان، امام باڑہ اورپریاگ راج میں چھوٹی کربلاشامل ہیں۔انکا کہناتھا کہ 2005 میں ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کی،سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت پر رپورٹ درج کرنے کیلئے جسٹس راجندر سچر پر مشتمل 7رکنی پینل تشکیل دیا، پینل نے 2006 میں اپنی رپورٹ جاری کی تھی، جسمیں سفارش کی گئی تھی کہ وقف بورڈوں کی مرمت کر نے،اپنی رپورٹ میں ریاستی وقف بورڈکے زیرانتظام جائیدادوں کی سخت نگرانی کرنے کی بھی درخواست کی، رپورٹ میں دی گئی سفارشات میں سے کسی کو بھی ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ہے، وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا پورٹل کا تعارف ہی وہ چیز ہے جسنے چیزوں کو آگے بڑھایا ہے،اقلیتی امور کی وزارت نے وقف املاک متعلق ڈیٹا آن لائن کرنے کیلئے پورٹل بنایا، فروری 2023 تک 8.69 لاکھ سے زیادہ غیر منقولہ سے جائیدادوں کا ڈیٹا سسٹم میں داخل کیا جا چکا ہے، سیاستدانوں،پولیس بیورو کریٹس اورلینڈمافیا نے طویل عرصے سے وقف اراضی کی تلاش میں ہے، جسے اب تک فروخت یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اہلکاروں کی جیبیں بھرنے کے عوض انہیں لیز پر دیا جاتا ہے، اسلئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وقف املاک کے معاملے کو سیاسی نقطہ نظرسے دیکھنے کے بجائے معروضی طورپردیکھاجائے، اس سے وقف بورڈ اور غریب مسلمانوں کو طویل مدت میں فائدہ ہوگا، مسلم طلبہ کیلئے اسکولوں اور کالجوں کیلئے مزید اراضی دستیاب ہوگی اور وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، مسلم کمیونٹی کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here