نئی دہلی،28دسمبر(محمد احتشام الحق):راجدھانی کے سوشل ورکر مولانا سیدشکیل احمد نے اپنے صحافتی بیان میں ایک حالیہ واقعہ کے حوالے سے بتایا کہ منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک طالبعلم نے ایک لیکچرار کو ایک دہشت گرد کے نام سے پکارنے پرڈانٹاجو کہ بدنام زمانہ چھبیس،گیارہ ممبئی حملے میں ملوث تھا، اس نے سوشل میڈیاپرویڈیوڈالی جس میں لاکھوں لوگوں نے کیس سے متعلق بحث کی۔ ویڈیو میں طالبعلم کو اپنے استاد کا سامنا کرتے ہوئے دکھا گیا کہ اسے اپنے ہم جماعتوں کے سامنے بلاناٹھیک نہیں ہے،لوگوں کواسطرح کے تنگ نظری کے نقصانات سے آگاہ کرنے موجودہ صورتحال سے کوئی بچانے والا نظر نہیں آتا، اس واقعہ نے اس سماجی برائی کو ختم کرنے کیلئے جس قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش کی ہے جس نے مجموعی طور پر ہندوستان کے سماج کو تقسیم کر دیا ہے،اس اصول پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، جو ترقی، ہم آہنگی کے ستون بن گیاتھاجب ہندوستان ایک ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو تفرقہ انگیزبیان کے بارے میں آگاہ کیا جائے جو ہندوستان کے مسلمانوں ہندوؤں کو تقسیم کررہاہے،فرقہ وارانہ تقسیم تفرقہ انگیز قوتوں کی فتح ہے، جو ذہنوں کو مجرم بناتی ہیں نیز انہیں ایک دوسرے کے بارے میں منفی سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں،اس عمل اورمنفی رجحان کوریورس کرنے کی ضرورت بڑھ رہی ہے،جولوگوں کو ایک ایسے بیانات سے لیس کر کے کیا جا سکتا ہے جو جامع اور تکثیریت کیساتھ مطابقت رکھتا ہو، کرنا ناگزیر ہے،لوگوں کو اس پریشانی کا احساس دلائیں جو مسلمان اپنے ساتھ لے جارہے ہیں،کئی بارانہیں عوامی اجتماعات،اسکولوں،کالجوں اور سیاسی جلسوں میں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مسلمانوں کے بارے میں غلط معلومات ہیں کہ انکا الگ سیاسی نقطہ نظر، سیاسی فلسفہ اورمختلف خواہشات ہیں، اس بات کوانکارنہیں کیاجاسکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک پسماندہ طبقہ ہے، جو معاشی طور پر پسماندہ، سیاسی طور پر کم نمائندگی اور تعلیمی لحاظ سے پیچھے ہے، تقاضا ہے کہ حکومتی اداروں کو شامل کرتے ہوئے اصلاحی اقدامات کیے جائیں،مسلمانوں کے بارے میں نفرت اورانتقامی گفتگو کی مذمت کر کے تفرقہ انگیز بیانات کو درست کیا جا سکتا ہے،رواداری، سماجی مساوات کے پیغام کیساتھ سازگار ماحول پیداکر کے کالجوں یونیورسٹیوں میں تعلیم فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے،یہ اچھا ہو گا کہ طلبامعاشرے میں پروگراموں،کانفرنسوں کااہتمام کریں تاکہ لوگوں کو تفرقہ انگیزسیاست کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے، بنیادی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جہاں مختلف مذہبی فرقے ایک دوسرے کو دشمن کے طورپرنہیں دیکھتے ہیں بلکہ شراکتی عمل میں برابر کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کوتکثیری معنوں میں ہم آہنگ اور روادار بنایا جائے جو کہ اپنا جوہر کھو چکا ہے، یہ سب کچھ مسلم کمیونٹی کے مثبت پہلو اور تکثیریت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کے طریقہ کار سے ہی حاصل کیاجاسکتاہے،جسکے لیے ہندوستان عالمی سطح پرمنایاجاتاہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here