نئی دہلی،11جون (محمد ارسلان خان):قریش کا نفرنس کے سینئر نائب صدر حاجی محمد سلیم احمد قریشی نے آج اپنے صحافتی بیان میں کہاکہ دی کیرالہ اسٹوری سے متعلق تنازعات اور اسکے نتیجے میں مہاراشٹرمیں تشددکے پس منظر میں ایک یاد دہانی کے طورپر کام کرتی داستانیں ہندوستان میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ معروف موسیقار(بولی ووڈ)ڈاکٹر اے.آر رحمان نے حال ہی میں ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایک ہندو جوڑے کی ایک مسجد کے اندر ہونے والی شادی کی تقریب کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس خوبصورت تقریب نے شمولیت اور باہمی احترام کے جذبے کی مثال دی جسکی جڑیں ہندوستانی اخلاقیات میں گہری ہیں،ایسی مثالیں ملک کی تکثیری نوعیت کا ثبوت ہیں، جہاں مختلف عقائد کے لوگ ہم آہنگی کیساتھ ساتھ رہتے ہیں۔حالیہ دنوں میں کیرالہ اور مہاراشٹرا نے ’کیرالہ اسٹوری کے ارد گرد ایک تنازعہ دیکھاہے، جہاں کیرالہ میں آئی ایس آئی ایس کی بھرتی کے بارے میں جھوٹے مصدقہ اعداد و شمار کو پھیلانے کی کچھ کوششیں کی گئیں، جسکے نتیجے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوئی، تاہم مسجدکے اندر شادی کی تقریب بندوستانی عوام کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کی پائیدار طاقت پر زور دیتے ہوئے اسطرح کی تفرقہ انگیزغیرمنایاجاتا رہا ہے۔ اس عظیم قوم کاہندوستان جیسے متنوع ملک میں تنوع میں اتحاد ہمیشہ دل کونئے ہائے مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے دھاگوں سے بنے ہوئے ہیں،حال ہی میں چھولینے والاواقعہ سامنے آیا جہاں کیرالہ میں ایک ہندو جوڑے نے مسجد کے اندرشادی کر لی کہ تقسیم کرنے والی داستانوں کیخلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر کھڑی ہے۔حاجی سلیم قریشی نے مزید بتایا کہ بندوستان قدیم زمانے سے بہی رواداری،قبولیت اور بقائے باہمی کی علامت رہاہے، مسجد میں شادی کی تقریب ہندوستان کی تکثیریت کی روایت اور مصیبت کے وقت اتحاد کو برقرار رکھنے کے عزم کی یاد دہائی کا کام کرتی ہے،جامع بیانیے افہام و تفہیم ہمدردی اور فرقہ وارانہ ہم اہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں اور اتحاد کی کہانیاں بانٹ کر بم تفرقہ انگیز داستانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور افہام و تفہیم کے پل باندھ سکتے ہیں،تقسیم کی بنیادی وجوہات جواکثرغلط توجہ دی جانی چاہیے، لہذامحبت، احترام اورہمدردی کی خوبیوں پر زور دینے سے اختلافات کوختم کرنے اور ایک جامع معاشرے فہمیوں، تعصبات اور تعلیم کی کمی کے نتیجے میں ہوتی ہیں،کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے،البتہ کیرالہ کی شادی کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم کی کوششوں کے باوجوداتحادکاجذبہ جیت جاتا ہے۔ ہندوستان کی اپنی قسم کو قبول کرنے اور اسکی تعریف کرنے کی صلاحیت اسکے سب سے بڑے اثاثوں میں سے ایک ہے، اس بات پر زوردیتے ہوئے کہ ایک ہم آہنگ کمیونٹی مشترکہ روایات تجربات اورنظریات کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here